واشنگٹن 24ستمبر ( آئی این ایس انڈیا /ایس او نیوز)
امریکا میں چین سے درآمد کی جانے والی 200 ارب ڈالر کی اشیا پر 10% ٹیکس لاگو ہو گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں عالمی نمو کے لیے خطرات میں اضافہ ہو گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس ٹیکس کو پیر کے روز عائد کیا۔ توقع ہے کہ چین فوری جواب کے طور پر امریکا سے ہر سال درآمد کی جانے والی 60 ارب ڈالر کی مصنوعات پر 5 یا 10% ٹیکس عائد کر دے گا۔دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ شدّت اختیار کرتی جا رہی ہے۔اگرچہ وہائٹ ہاؤس کے ایک سینئر عہدے دار نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکا آگے کی جانب بڑھنے کے سلسلے میں کسی مثبت ذریعے تک پہنچنے کے لیے چین کے ساتھ رابطہ جاری رکھے گے ،،، تاہم اس کے باوجود دونوں میں سے کسی جانب نے بھی درمیان کے حل تک پہنچنے کے لیے تیار ہونے کا اظہار نہیں کیا۔امریکی عہدے دار نے جمعے کے روز بتایا کہ بات چیت کے دوسرے دور کا وقت متعین نہیں ہوا۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق چین نے اپنے نائب وزیراعظم لیو خے کو رواں ہفتے واشنگٹن نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بیجنگ کی جانب سے واشنگٹن پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ تجارتی مذاکرات میں مخلص نہیں۔ماہرین معیشت خبردار کر رہے ہیں کہ تنازع کا طول پکڑنا بالآخر نہ صرف چین اور امریکا میں نمو کو معطّل کر دے گا بلکہ یقیناًیہ عالمی معیشت کو بھی وسیع پیمانے پر متاثر کرے گا۔ٹرمپ کئی ماہ سے چین سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ "غیر شفّاف" تجارتی کارروائیوں پر روک لگائے۔ امریکی صدر خاص طور پر اس امر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ چینی منڈی میں داخل ہونے کی خواہش مند امریکی کمپنیوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی ٹکنالوجی مہارتوں کو مقامی شراکت داروں میں تقسیم کریں۔ ٹرمپ نے چین پر Intellectual property کے سرقے کا الزام بھی عائد کیا۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اتوار کے روز فوکس نیوز سے گفتگو مین کہا کہ امریکا کے خلاف چین کی تجارتی جنگ کئی برسوں سے جاری ہے۔پومپیو کا کہنا تھا کہ "ہم یقیناًچین کو ایسے طریقے سے تصرف پر مجبور کر دیں گے جس کی ہم ایک عالمی طاقت سے توقع رکھتے ہیں۔ جس میں شفافیت اور قانون کی ریاست کا احترام ہو۔ جہاں پر Intellectual property کا سرقہ نہ ہو۔